جب غیرت، قتل بن جائے: شیتل اور زراک کی دل دہلا دینے والی کہانی
بلوچستان کی سنسان زمین پر چند لمحوں کے لیے سب کچھ تھم سا گیا۔ وہ زمین جس نے کئی صدیوں کی خاموشیاں اپنے دامن میں سمیٹی ہوئی ہیں، وہاں ایک بے آواز چیخ نے فضا کو چیر کر رکھ دیا۔ یہ کوئی قدرتی سانحہ نہیں تھا، نہ ہی کوئی جنگ — بلکہ یہ ایک قتل تھا۔ ایک ایسا قتل جو نہ کسی جرم کی سزا تھا اور نہ کسی عدالت کا فیصلہ۔ یہ قتل تھا محبت کا، اختیار کا، اور سب سے بڑھ کر — عورت کی مرضی کا۔
شیتل، ایک 24 سالہ نوجوان لڑکی، اور زراک، 32 سالہ مرد، ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی مرضی سے ایک دوسرے سے شادی کی، اپنی زندگی کو اپنے طریقے سے جینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ان کا یہ فیصلہ ان کے قبیلے کو قبول نہ ہوا۔ ان کے “روایتی اصولوں” کے مطابق، محبت ایک گناہ ہے اور بیٹی کی مرضی قبیلے کی غیرت کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔ اسی “غیرت” کی حفاظت کے لیے دونوں کو بلایا گیا — نہ مشورے کے لیے، نہ سمجھانے کے لیے — بلکہ صرف اور صرف قتل کرنے کے لیے۔
انہیں ایک کھلے میدان میں لایا گیا، جہاں 19 مرد پہلے سے موجود تھے۔ ان میں سے پانچ کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔ شیتل ایک چادر میں لپٹی ہوئی، ہاتھوں میں قرآن تھامے کھڑی تھی — شاید امید تھی کہ اللہ کا کلام کسی کے دل کو نرم کر دے گا۔لیکن ان درندہ صفت ذہنوں میں انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہ رہی تھی۔۔ شیتل پر نو گولیاں چلائی گئیں، اور وہ خاموشی سے زمین پر گر گئی۔ پھر زراک کی باری آئی۔ اسے اور زیادہ گولیاں ماری گئیں — شاید اس لیے کہ وہ ایک مرد تھا جس نے محبت کرنے کا “جرم” کیا تھا۔
یہ قتل ایک سوال چھوڑ گیا: کیا محبت کرنا جرم ہے؟ کیا اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنا ایسی سزا کا حق دار بناتا ہے؟ شیتال اور زراک کا واحد “قصور” یہ تھا کہ انہوں نے اپنی مرضی کی۔ لیکن ایک ایسا سماج جو عورت کی آزادی کو اپنی انا کے خلاف سمجھتا ہے، وہاں ایسی “غیرت” انسانیت کے خون سے رنگین ہو جاتی ہے۔
اس قتل کو غیرت کے نام پر جواز دینا ایک خطرناک عمل ہے۔ اگر غیرت میں اپنی ہی بیٹی کو قتل کرنا شامل ہو، تو وہ غیرت نہیں، درندگی ہے۔ ایسی روایت جو عورت کے قتل پر فخر کرے، وہ تہذیب نہیں بلکہ جہالت ہے۔ شیتل اور زراک کی کہانی صرف ایک المیہ نہیں، بلکہ معاشرتی بے حسی اور عورت دشمنی کی داستان ہے۔
ہر روز درجنوں عورتیں اپنے فیصلوں، اپنی محبت، اپنی آزادی کی قیمت اپنی جان سے ادا کرتی ہیں۔ شیتل نے آخری لمحے تک مزاحمت کی، چیخے بغیر اپنی وقار کے ساتھ موت کو قبول کیا۔ اس کی خاموشی چیخ بن گئی، ایسی چیخ جو ہمارے سماج کے کانوں کو چیرتی ہے — بشرطیکہ ہم سننے کو تیار ہوں۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ خاموشی اب جرم ہے۔ ہمیں یہ کہنا ہوگا کہ یہ قتل ہے، ظلم ہے، دہشتگردی ہے۔ اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی یہ کوئی روایتی فخر ہے۔ یہ صرف اور صرف عورت دشمن ذہنیت کی ایک پرانی شکل ہے، جو اب ختم ہونی چاہیے۔
شیتل اور زراک نے قبیلے کی توہین نہیں کی — ان کے قاتلوں نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا۔ اگر ہم آج بھی خاموش رہے، تو ہم بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہوں گے۔ آج ہر عورت جو ظلم کے خلاف کھڑی ہوتی ہے، ہر وہ آواز جو محبت، آزادی اور برابری کی بات کرتی ہے — وہ ایک نئی شیتال کی امید بن جاتی ہے۔
اب وقت ہے کہ ہم صرف قانون نہیں، بلکہ اپنی سوچ، اپنی زبان، اور اپنی خاموشی کو بدلیں۔
تاکہ کل کوئی اور بیٹی، کسی مرد کی جھوٹی انا کی بھینٹ نہ چڑھے۔